مولانا کیلم صدیقی کی گرفتاری امت کے لئے لمحہ فکریہ!دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر -->

Advertisement

مولانا کیلم صدیقی کی گرفتاری امت کے لئے لمحہ فکریہ!دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر

Hum Bharat
Wednesday 22 September 2021

 دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد مشتاق فلاحی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



آج صبح جب مولانا کلیم صدیقی صاحب کی گرفتاری کی خبر واٹس اپ پر پڑھی تو پتہ نہیں کیوں اپنی ۲۰ سال قبل کی مظلومی ومحرومی کا احساس زندہ ہوگیا۔حالانکہ اب اس طرح کی خبروں میں کوئی نیا پن نہیں رہا۔

گزرے ۲۰ سال کی حقیقت یاد آئی تو وہ چہرے،جماعتیں،داعی،خانقاہیں اور مدارس ومکاتب سب کے نام ومقام بھی ذہن کی اسکرین پر دوڑ گئے جو نوجوانوں کی تنظیم مظلوم پر بلا وجہ پابندی کے باوجود اپنے اپنے خول اور عافیت خانوں میں محو استراحت تھے،بعض یہ کہہ کر کہ ہمیں کیا کرنا یہ تو جماعت اسلامی کے لوگ ہیں،بعض یہ کہہ کر کہ اپنے مکتبہ فکر کے خلاف تھے اور بعض وہ جنہیں اپنا سمجھایا جاتا تھا یہ کہہ کہ"یہ سر پھرے اور ملٹینٹ ہیں" گویا ملی قیادت کی اکثریت تھی جس نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو اب پریشان کرنے والے،راتوں کو جگانے والوں سے چین ملیگا۔لیکن کاش ایسا ہوتا!!!

جب ظلم کا دور چلا تو پھر کوئی بچ نہ پایا۔ابتدا طلبہ تنظیم سے منسلک غیرت مند نوجوانوں سے ہوئی اور اگلا پڑاو مظلوم ومقہور گجرات کے مسلمان تھے۔جس قیادت نے ستمبر ۲۰۰۱ میں خاموشی کو عافیت کی چادر سمجھی وہ گجرات قتل عام میں مک درشک کے سوا کچھ نہ کر پائے۔چپ کا روزہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ حکومت اپنے اوٹو سے آئی ہوئی تھی۔

اگلی باری تھی بابری مسجد پر جبرا وظلما فیصلہ کی۔یہاں بھی قیادت نے اپنے عافیت پسندانہ کردار کو دہرایا اور باتوں کے جمع خرچ  کے سوا کچھ نہ کر پائی۔ظالم کے منہ کو جب مظلوم عوام کا خون لگا تو کوئی حد باقی نہ رہی،یک بعد دیگرے مسلمانان بھارت پر جبر وتشدد کے پہاڑ توڑتا چلا گیا،لیکن ملی قیادت۔۔۔ ایسا محسوس ہوا کہ ہر واقعہ بعد اپنے آپ کو اور زیادہ بے سہارا سمجھتی چلی گئی۔ 

پہلی مجرمانہ خاموشی قیادت کے دامن کو لگا ایسا داغ بن گئی جو گزرتے وقت کے ساتھ دھندلانے کے بجائے اور گہرا ہوتا چلا گیا۔

اب بھارتی مسلم قیادت کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ دشمن مسلمانوں کے تئیں سخت سے سخت ترین رویہ اختیار کیے چلا جا رہا ہے اور زعماء ملت ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم 

کی مجسم تصویر بنے نظر آرہے ہیں۔

اب تو کیفیت یہ ہوگئی ہے کہ ۔۔۔۔۔اللہ معاف کرے۔۔۔۔۔کسی قائد کی گرتی دیوار دیکھ کر،ملی مسائل میں اس کی مجرمانہ خاموشی یاد کرکے طبیعت یہ چاہتی ہے کہ دوسروں کی مظلومی پر خاموش رہنے والوں کے لیے کیا دعا کی جائے۔

اللہ مولانا کلیم صدیقی صاحب پر آئی آزمائش میں انہیں ثابت قدم رکھے،لیکن بچی قیادت سے اس بات کی بالکل بھی امید نہیں ہے کہ وہ بیان بازی کے سوا کچھ اور کرنے کی ہمت جٹا پائیں گے۔

شاعر نے بالکل سچ کہا 


دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر 


کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے