کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟ -->

Advertisement

کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟

Hum Bharat
Wednesday 1 December 2021


 کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟


اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ زندگی کا مالک بھی ہے اور موت کا بھی۔ یعنی اس کے علاوہ نہ کوئی کسی کو زندگی بخش سکتا ہے اور نہ کوئی کسی کو موت دے سکتا ہے۔ پہلا کام تو صد فی صد اللہ اپنے حکم سے کرتا ہے رہا موت کا معاملہ تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے اللہ کے مقرر کردہ وقت پر آتی ہے۔ مثلاً کوئی بوڑھا ہو کر طبعی موت مرتا ہے کوئی بیمار ہو کر تو کوئی کسی حادثے کا شکار ہو کر یا پھر کسی انسان کے ذریعے قتل ہو کر جس میں تعزیراتی سزا یا جنگ یا قتل عمد سب شامل ہیں۔

            اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور مردہ سے زندہ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم مرغی یا انڈا دینے والے پرندوں کے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح بے جان انڈوں سے جیتے جاگتے باہر آتے ہیں۔ یہاں انڈہ مردہ کی مانند ہے جو روزآنہ کے مشاہدے کی بات ہے۔ یہاں وہ سائینسی بحث نہیں ہے کہ انڈے میں زندگی کے آثار ہوتے ہیں وغیرہ جیسے نباتات میں۔ یہاں عینی مشاہدہ کی بات ہے کہ انڈہ ایک مردہ شے ہے اور اس سے بچہ نکلتا ہے۔ اور یہ انڈہ زندہ مرغی یا دیگر پرندے دیتے ہیں یعنی زندہ سے مردہ برآمد ہوتا ہے۔

لیکن جب عصا اژدہا بن جاتا ہے یا رسیاں سانپ بن جاتی ہیں تو ہم اسے معجزہ کہتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ روزآنہ کے معمولات سے ہٹ کر جو مشاہدہ ہوتا ہے وہ ہمیں حیران کر دیتا ہے اور اسی حیرت کی وجہ سے ہم اس کو معجزہ کہتے ہیں یعنی ایسا کام جس کو کرنے سے انسان عاجز ہو۔ لیکن کیا انڈے سے بچہ انسان نکال سکتا ہے ؟ یہ بھی اتنا ہی حیرت انگیز ہے جتنا عصا کا اژدہا بن جانا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک کام ایک ہی فطری طور پر روزآنہ انجام ہوتا ہوا دیکھنے سے ہماری حیرت کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔

         اب میں اسی طرح کی ایک حیرت انگیز بات بتانے جا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ اس کا مشاہدہ بہت ہی کم افراد نے کیا ہوگا۔

         ہم ندی تالاب یا سمندر کے کنارے بہت سے سیپی گھونگھے (لولو اور مرجان) دیکھتے ہیں جن کی جسامت بھی مختلف ہوتی ہے۔ یہی گھونگھے جب سمندر میں مد آتا ہے تو اس میں بہہ کر قریب کے کھیتوں وغیرہ میں چلے جاتے ہیں اور وہیں پرورش پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پانچ ملی میٹر کا ایک گھونگھا کسی کھیت میں آگیا۔ اب وہ وہیں پرورش پاتا ہے۔ پانی اتر جانے کے بعد وہیں گیلی مٹی میں وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں سمندر کی مد کا پانی نہیں پہنچتا۔ گرمی کے موسم میں جب تپش پورے عروج پر ہوتی ہے اور قرب و جوار کا سارا پانی خشک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ زمین کی اوپری سطح تک تڑخ جاتی ہے تو وہ گھونگھا خود کو اپنے خول میں سمیٹ کر خول کو ایک سخت ڈھکن سے بند کر لیتا ہے اور اسی جگہ ساکت و صامت ہو جاتا ہے۔ آپ اسے اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ سوکھا گھونگھا بے وزن محسوس ہوگا۔ اگر اس کے خول کو توڑ دیں تو اندر سواۓ خلا کے کچھ نہیں ملے گا۔

        کیا اس خالی گھونگھے کے خول کو کسی صورت زندہ کہا جا سکتا ہے ؟ اس میں دور دور تک زندگی کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔ جس طرح گیہوں کا سوکھا دانہ اس سے بھی بعید ہے اس گھونگھے میں زندگی کا ثابت ہونا۔ لیکن جب دوبارہ بارش ہوتی ہے تو اسی سوکھے اور خالی گھونگھے کے خول میں جسم تیار ہونے لگتا ہے اور وہ پھر پہلے کی طرح بھر جاتا ہے اور اس طرح جب تک اسے نمی ملتی رہتی ہے اس کی نشوونما ہوتی رہتی ہے اس کا قد بڑھتا رہتا ہے۔ پانچ ملی میٹر سے ایک سینٹی میٹر اور ایک ایک فٹ تک ان کی جسامت ہو جاتی ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں ہے ؟ مردے سے زندہ نکالنے کی اور بہتر کیا مثال ہو سکتی ہے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ان علاقوں میں جہاں سالہاسال سوکھا پڑا ہوتا ہے۔ لیکن بارش کی پہلی پھوار پڑتے ہی ہفتہ بھر میں میدان ہرا بھرا ہو جاتا ہے۔ تتلیاں ٹڈے اڑنے لگتے ہیں اور بعض جگہ تو جہاں پانی بھر جاتا ہے جیسے خشک تالاب وغیرہ ان میں مچھلیاں تک تیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ان انڈوں کی وجہ سے جو برسہا برس زمین میں دفن مردہ حالت میں پڑے ہوتے ہیں اور جیسے ہی موسم سازگار ہوتا ہے ان میں سے بچے نکل آتے ہیں۔ کوئی سائینس ان انڈوں کو زندہ ثابت نہیں کر سکتی علاوہ اس کے کہ جن سے بچے نکل آئے وہ زندہ انڈے تھے اور جن سے نہیں نکلے وہ یا تو بارآور نہیں تھے یا مر چکے تھے۔

        ہم اپنے اطراف روز اللہ تعالیٰ کے سینکڑوں معجزات دیکھتے ہیں لیکن چونکہ وہ روز کے معمولات میں سے ہوتے ہیں اس لئے ہم یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ بھی معجزہ ہی ہے کہ ماچس کی تیلی کی رگڑ سے آگ کیسے نکل پڑی۔



مرزا انور بیگ

میرا روڈ۔ تھانہ

۲۸ نومبر ۲۰۲۱