Advertising

قبروں کی تجارت مقبروں کی سیاست

Hum Bharat
Tuesday 8 June 2021
Last Updated 2021-06-08T06:10:33Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates

از قلم:ایم ودود ساجد


اگر سیوان کے مرحوم سیاستداں محمد شہاب الدین سے ہی ان کی زندگی میں کسی نے پوچھ لیاہوتا کہ کیا آپ کی موت کے بعد آپ کی قبر کو پختہ بنادیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ شہاب الدین نہ صرف یہ کہ اس سوال پر ناراض ہوتے بلکہ سوال کرنے والے کے منہ پر کم سے کم ایک طمانچہ تو ضرور رسید کرتے۔۔ میرے اس یقین کے کئی اسباب ہیں۔۔


مذکورہ موضوع کے زیر بحث آنے کا سبب وہ خبر بنی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بہار کے سابق سیاستداں کی دہلی گیٹ کے قبرستان میں واقع قبر کو کچھ لوگ پختہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے جسے قبرستان کمیٹی نے کامیاب ہونے نہیں دیا اور یہ کہا کہ "بیٹھ کر " بات کریں گے۔۔۔ آج یہ خبر مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔۔ ایک اردو روزنامہ میں شائع تصویر میں قبر کے چاروں طرف کچھ فٹ اونچی دیواریں اور چاروں کونوں پر چار ستون بھی نظر آرہے ہیں۔


محمد شہاب الدین کے بارے میں‘میں نے اس وقت عمداً کچھ نہیں لکھا تھا جب یکم مئی 2021 کو دہلی کے دین دیال اپادھیائے ہسپتال میں مبینہ طور پر کورونا سے (اور ان کے بیٹے کے مطابق ایک’سازش کے تحت‘) ان کی موت ہوگئی تھی۔اس وقت ان کی میت کے ساتھ جو زیادتی ہوئی وہ بہت تکلیف دہ تھی۔ان کے بیٹے کے دو مطالبات تھے۔میت کو ان کے آبائی مقام سیوان لے جانے دیا جائے اور میت کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔۔ بعد میں بہار کے سابق وزیر اعلی جیتن رام مانجھی نے بھی ان سلسلہ وار واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جو ان کی موت کا سبب بنے۔واضح رہے کہ محمد شہاب الدین ایک کمیونسٹ لیڈر کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے اورمقتول کے اہل خانہ کی اپیل اور سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں منتقل کردیا گیا تھا۔۔ 


1990 سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے شہاب الدین نے دو مرتبہ اسمبلی کا اورچار مرتبہ لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور ہر بار کامیاب ہوئے۔ان پر ایک درجن سے زائد مجرمانہ نوعیت کے مقدمات تھے مگر انہیں کسی الیکشن میں شکست نہیں ہوئی۔سزا یافتہ قرار دئے جانے کے بعد سیوان کے ایڈمنسٹریشن نے الیکشن کمیشن کے حکم پر ان کا نام تک ووٹر لسٹ سے ہٹادیا۔کہتے ہیں کہ وہ آر جے ڈی کے بانی لالو پرساد کے بہت قریب تھے اورانہی کی وجہ سے انتظامیہ شہاب الدین سے خوف کھاتا تھا۔لیکن ان کے چاہنے والے انہیں ایک ہمدرد انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔


دہلی میں ان کی موت کے بعد ’دی پرنٹ‘ کے صحافی دیپک مشرا نے یکم مئی 2021 کو ایک رپورٹ شائع کی تھی۔1998کے الیکشن میں دیپک مشرا سیوان گئے تھے اور شہاب الدین سے بھی انٹرویو کیا تھا۔۔ یکم مئی 2021 کی رپورٹ میں دیپک مشرا نے بتایا تھا کہ شہاب الدین کے دعوے کے مطابق انہوں نے سیوان میں ایسا ماحول بنادیا تھا کہ آدھی رات کے وقت بھی خواتین آزادی کے ساتھ کہیں بھی آجاسکتی تھیں۔ 


مجھے دیپک مشرا کی یہ رپورٹ پڑھتے وقت  2010 میں کیا گیا اپنا دورہ امریکہ یاد آگیا۔کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ایک افغان لڑکی ریسرچ کر رہی تھی۔اس نے طالبان کی دہشت کے موضوع پر ہمیں ایک لیکچر دیا تھا۔لیکن آخر میں وہ بھی یہ اعتراف کرکے اٹھی کہ طالبان کے زمانہ میں ان کے اقتدار والے علاقوں کی سڑکوں پر آدھی رات کو بھی خواتین محفوظ تھیں اور ان کے زمانے میں عصمت دری کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔۔ 


اب آئیے اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔جس وقت شہاب الدین کے بیٹے اور دیگر اہل خانہ ان کی میت کو سیوان لے جانے کیلئے سرگرداں تھے دہلی وقف بورڈ کے چیرمین اور ممبر اسمبلی امانت الله خان ان کی مدد کر رہے تھے۔۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے میت کی تدفین کے لئے دہلی گیٹ اور بٹلہ ہاؤس‘ دونوں جگہ قبریں تیار کرادی تھیں۔۔ پولیس آخر تک پریشان کرتی رہی اور آخر کار تین مئی کو دہلی گیٹ قبرستان میں تدفین ہوگئی۔اس دوران‘ شہاب الدین کے چاہنے والوں نے دہلی گیٹ قبرستان میں بہت سی پختہ قبریں دیکھیں اور شاید اسی وقت انہوں نے عہد کرلیا کہ وہ بھی اپنے لیڈر کی قبر کو پختہ کرائیں گے۔۔ 


علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قبر کو پختہ کرانا غیر اسلامی عمل ہے۔ لیکن دہلی گیٹ کے ہی قبرستان میں 50 فیصد قبریں پختہ ہیں۔ان میں سب سے نمایاں اور اونچی (اور خوبصورت بھی )  قبر ایک ایسے مسلمان کی ہے جو عمر بھر سٹے کا کاروبار کرتا رہا۔۔ (میں نے عمداً نام نہیں لکھا)۔ سنا ہے کہ وہ سٹے کے معاملہ میں پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔اسی طرح قبرستان مہندیان میں 70 فیصد قبریں پختہ ہیں۔قبرستان خواجہ باقی باللہ میں کہتے ہیں کہ متمول لوگ اپنی زندگی میں ہی قبر کی زمین خرید لیتے ہیں۔یہ رقم 75 ہزار سے ڈھائی لاکھ تک ہوتی ہے۔۔ قبرستان کے معاملات پر نظر رکھنے والے ایک صاحب خیر نے بتایا ہے کہ مذکورہ تینوں قبرستانوں میں اب جگہ کم ہوتی جارہی ہے اور خواجہ باقی بالله میں تو جگہ ختم ہی ہوگئی ہے۔۔ لہذا اب لوگ اپنے مدفون رشتہ داروں کی قبروں میں ہی نئی میتیں دفن کر رہے ہیں۔۔ لیکن پیسے اس کیلئے بھی دینے پڑتے ہیں۔۔ 


مہندیان قبرستان کے بارے میں ایک صاحب نے بتایا کہ کسی نے اپنی قبر کیلئے 1964میں ہی جگہ خرید لی تھی۔کچھ برس قبل ہی ان کا انتقال ہوا تو خریداری کی رسید دکھانے کے باوجود ان کے اعزاء سے 40 ہزار روپیہ لے کر ہی میت کو دفن ہونے دیا گیا۔دہلی میں کچھ مسلم آبادیاں ایسی بھی ہیں کہ جہاں قبرستان ہیں ہی نہیں۔ان میں اندر لوک کا علاقہ نمایاں ہے۔یہاں کے جنازے دوسرے قبرستانوں میں لائے جاتے ہیں۔بیرونی دہلی کے مسلم علاقوں کا حال ہی عجیب ہے۔وہ اپنے قبرستانوں میں دوسرے علاقوں کے لوگوں کی تدفین نہیں ہونے دیتے۔۔ 


پختہ قبروں والے اشو پر واپس لوٹتے ہیں۔عالیشان پختہ قبر بنانے میں "سٹے والے" ہی آگے نہیں ہیں بلکہ کوٹھی والے پڑھے لکھے اور باوقار لوگ تو ان سے بھی آگے ہیں۔مثال کے طور پر پنج پیراں (باہری نظام الدین) کے قبرستان کو ہی لے لیجئے ۔۔  دہلی میں مقیم بہارکے ایک مشہور سابق ممبر پارلیمنٹ کے ایک انتہائی قریبی عزیز کا انتقال ہوا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی پکی قبر بنادی بلکہ چہار دیواری کرکے لوہے کا جال اور دروازہ بھی لگادیا۔ ایک (تازہ تازہ) سابق نائب صدر جمہوریہ کے بھی دو اعزاء یہاں مدفون ہیں۔انہوں نے بھی پکی قبریں بناڈالیں۔ سنا ہے کہ اب وہ بھی چہار دیواری اورآہنی حصار کرنا چاہتے ہیں۔ دہلی وقف بورڈ نے اپنے تحت تمام قبرستانوں کے دروازوں پر اس مفہوم کا بورڈ آوایزاں کر رکھا ہے کہ یہاں پکی قبریں بنانے کی اجازت نہیں ہے ۔۔ لیکن جسے بنانی ہوتی ہے وہ بناہی لیتا ہے۔خواہ کمیٹی کو "اعتماد" میں لے کر یا کمیٹی کے اعتماد کو "ٹھیس" پہنچا کر۔۔۔


مجھے شہاب الدین کی قبر کو پکی بنانے کی کوشش کرنے والوں سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔علماء جانیں اور قبرستانوں کے ذمہ دارجانیں۔۔  وہ مجھ سے پلٹ کر سوال کرسکتے ہیں کہ جب سٹے والوں کی قبر پکی بن سکتی ہے تو شہاب الدین کی کیوں نہیں ۔۔۔؟ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ شہاب الدین خود یہ کہہ کر اس تجویز کو پوری طاقت کے ساتھ مسترد کردیتے کہ وہ کوئی بزرگ‘ صوفی یا عالم دین نہیں ہیں۔۔ حالانکہ قبر کو پکی کرنا تو کسی کیلئے بھی جائز نہیں ہے۔۔


قبرستانوں کے معاملات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اگر قبروں کو پکی بنانے کا یہ غیر شرعی رجحان  ختم نہ ہوا تو آئندہ پانچ برسوں میں دہلی کے کسی قبرستان میں جنازہ کو دفن کرنے کی جگہ باقی نہیں رہے گی۔اور اگر خدانخواستہ کورونا کی تیسری لہر بھی آگئی توپھر تو الله ہی مالک ہے۔۔۔


مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس طرح کے معاملات میں دہلی والے کیوں خاموشی اختیار کرلیتے ہیں؟ شاید سب یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہم کیوں درد سری مول لیں ' ہمارے مرنے کے بعد رشتہ دار خود نپٹ لیں گے۔۔۔ یہ سوال بھی ذہن میں آتا ہے کہ کیوں علماء فتوی جاری نہیں کرتے۔۔۔؟ پھر خیال آتا ہے کہ فتوی جاری کریں گے تو "سٹے والے" بھی زد میں آئیں گے اور "کوٹھی" والے بھی۔۔۔

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl