Advertising

طالبان دہشتگرد نہیں انصاف پسند ہیں

Hum Bharat
Tuesday 17 August 2021
Last Updated 2021-08-17T06:43:57Z
Premium By Raushan Design With Shroff Templates






دیو آمدند دیو آمدند کی سیریز، طالبان آگئے طالبان آگئے: 

تحریر: سمیع اللہ خان 

یاد کیجیے: ایرانیوں نے مدائن پر مسلمانوں کو حملے سے روکنے کے لیے دجلہ کا پل توڑ کر کشتیاں روک لیں تھیں ،اس لیے جب مسلمان دجلہ کے کنارے پہنچے تو اسے عبور کرنے کا کوئي سامان نہ تھا ۔سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اللہ کا نام لے کر دریائے دجلہ میں گھوڑا ڈال دیا ۔انھیں دیکھ کر پوری فوج دجلہ میں اتر گئي اور نہایت اطمینان سے باتیں کرتی ہوئے پار پہنچ گئی ۔ ایرانی دور سے یہ حیرت انگیز منظر دیکھ رہے تھے اور متحیر تھے ۔ جب مسلمان کنارے پر پہنچ گئے تو متحیر ایرانی " دیواں آمدند ، دیواں آمدند " ( دیو آ گئے ! دیو آ گئے ! ) کہتے ہوئے بھاک نکلے، آج یہی  تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے، 

 ۲۰ سالوں پہلے جس امریکا نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر افغانستان پر ناجائز حملہ کیا اور ان کی زمینیں ہتھیانے کی کوششیں کی تھیں آج وہ طاقت اپنے گھمنڈ سمیت خاک آلود ہوچکی ہے، دنیا کی سب سے طاقتور ترین افواج نے طالبان کی نسلیں مٹانے اور افغانیوں کو اجاڑنے کا ہر ممکن سامان کردیا تھا کسی کو ادنیٰ سا گمان نہیں تھا کہ مجاہدین ظفریاب ہوں گے مگر آج طالبان کو برسراقتدار ہوتا دیکھ کر ظالموں اور ملحدوں کے ہوش اڑ چکےہیں یہ جو ماتم طاری ہے طالبان آگئے، طالبان آگئے وہ دراصل دیواں آمدند، دیواں آمدند کا ہی تسلسل ہے، جب جب انصاف اقتدار میں آئے گا ظلم کی پھڑپھڑاہٹ یقینی ہے، یہ انصاف پسندوں کی آمد سے گھبراہٹ کا ماحول ہے جسے حقوق انسانیت کا نام دیا جارہاہے ۔


 افغانیوں نے اپنی جائز زمینیں، ناجائز غیرملکی قبضوں سے آزاد کرا لی ہے، افغانی قوم کی یہ لڑائی تحریکِ طالبان نے لڑی،  جانبازی و استقامت اور امانت داری کےساتھ لڑی،  نتیجے میں فتح ان کا مقدر ہوئی ہے


 دیکھا جائے تو افغانستان میں یہ بالکل فطری اور منصفانہ تبدیلی ہے مگر دنیا بھر میں ایسا شور اٹھا ہے جیسے پوری کی پوری دنیا بس ابھی ختم ہوئی جارہی ہے

 

 لبرل مسلمانوں سمیت ہر غیرمسلم ایسے چیخ و پکار مچائے ہوئے ہے جیسے ان کے سروں پر کوئی آفت نازل ہوگئی ہو 

 بھاگو ۔ بھاگو ۔ طالبان آگئے کا بوکھلاہٹی نعرہ نیا نہیں ہے، یہ اسلامی عروج پر دیو آمدند کی خوفزدہ گونج کا تسلسل ہے، منافقین و مشرکین کا فطری ردعمل ہے، جب جب شرک مغلوب ہوا اور توحید غالب آیا ہے ایسے ہی چیخ و پکار مچی ہے، جیسے آج ماتم کی گہار ہے 

 بھارتی ہندوتوا کے تمام لوگ خواہ سیکولر ہوں یا کمیونل ایک زبان ہوچکےہیں عالمی استعماری سامراج والے خواہ عیسائی، یہودی، ہوں یا کمیونسٹ سب کے سب  تقریباﹰ ایک ہی صف میں آچکے ہیں 

 سب بیک زبان رٹ رہےہیں: 

 " طالبان آگئے اب انسانیت کا خاتمہ ہوگا، طالبان آگئے اب عورتوں کی آزادی ختم ہوجائےگی، انسانوں کا خون بہےگا، عورتوں کا ریپ ہوگا، ظلم و جبر وحشت و دہشت اور خونریزی کا راج ہوگا، اب عورتیں محفوظ نہیں، اموال لوٹی جائیں گی، بپھرے ہوئے سانڈوں کی طرح فحاشی اور بدکاری کی آزادی نہیں ہوگی "

 بہتان بازی پر مبنی یہ ساری چیخ و  پکار درحقیقت طالبان کے خلاف مسلسل ظالمانہ پروپیگنڈے کا رزلٹ ہے، اگر ان الزامات میں واقعی سچائی ہوتی تو افغانی قوم کبھی بھی شکرگزار آنکھوں کےساتھ طالبان کا استقبال نہیں کرتی، اور اس سے بھی بڑی وجہ، اقتدار یافتہ اسلام سے عالمِ کفر کی ازلی دشمنی ہے، اسلاموفوبیا کا زہر حقیقی سبب ہے، آج کی دنیا اسلام کو مغلوب اور مسلمانوں کو مظلوم دیکھنے کی عادی ہے، کیونکہ اسی سے ان کا دھندا چلتا ہے اور شرکیہ نفس میں موجود فطری اسلام دشمنی کے جذبے کو تسکین ملتی ہے۔


 اب دیکھیے، بھارت کی وہ ہندوتوا مخلوق جو کچھ روز پہلے تک ہندوستان کی مسلم عورتوں کو طوائف خانے میں بیچنے کا بازار لگا رہی تھی، جو ہندو دہشتگرد مسلم عورتوں کے حمل چاک کرنے کی بات کررہےتھے آج انہیں افغانی مسلم خواتین کی بڑی فکر ستا رہی ہے، جو یوروپ فلسطینیوں پر اسرائیلی خونریزی کے وقت دہشتگرد اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوتاہے آج وہی مغربي دنیا کے بےشرم افغانستان میں مسلمانوں کے حقوق کا ماتم کررہےہیں، جو ہندو۔دہشتگرد بھارت میں مسلمانوں کو ماب لنچنگ میں قتل کرواتے ہیں وہ افغانستان کے مسلمانوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو رو رہے ہیں 

 کمال کی بات یہ ہیکہ ۔ کچھ روز پہلے جب مسلمانوں کےخلاف بھارت کی ہندوتوا گورنمنٹ نے، سی اے اے اور این آر سی کا متعصبانہ اور ظالمانہ ضابطہ متعارف کروایا تب اس متعصبانہ شہریت کےخلاف جو آوازیں دیگر ممالک سے بلند ہوئیں تھیں انہیں بھارتی حکمرانوں اور مودی بھکتوں نے ملک کے اندرونی معاملے میں بیرونی مداخلت قرار دے کر ریجیکٹ کیا تھا وہی مودی۔بھکت ہندو میڈیا آج کمال بےشرمی سے ہندوستان سمیت دنیا بھر کو پکار رہاہے کہ افغانستان کے اندرونی معاملے میں گھس پیٹھ کریں ۔


 طالبان پر دہشتگردی کے اور انتہاپسند سفاکیت سے ظلم کرنے کے سارے الزامات سرتاسر جھوٹ پر مبنی ہیں، اور اسی لیے ہم ان سے اچھی توقعات وابستہ رکھتےہیں کہ ان کا عہدِ حکمرانی افغانستان کا خوشحالی اور ترقی پذیر دور تھا، چونکہ یہ جھوٹ بیس سالوں پہلے گڑھا گیا اور دو دہائیوں سے اسے دنیا کی غالب طاقتوں نے مکمل منصوبے کےساتھ پھیلایا اسی لیے جھوٹ پر قائم یہ پروپیگنڈہ لوگوں کے دلوں میں اندر تک سرایت کرگیاہے، اسلیے آج طالبان کے برسراقتدار ہوتے ہی، دیو آمدند، دیو آمدند کی صورتحال ہے 


 جبکہ حقائق برعکس ہیں، طالبان ایک وفادار، امانت دار اور نیک دل لوگوں کی جماعت ہے، انہوں نے اپنے وطن کو غیرملکی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے جنگ کی جوکہ ہر غیور انسان کا پیدائشی حق ہے، طالبان پہلے بھی اچھے تھے اور آج بھی اچھے ہیں، جیسے دنیا کے ہر مذہب اور ملک والوں کو حقِ خودارادیت حاصل ہے ویسے ہی انہیں بھی حاصل ہے، جیسے ہر سرزمین کے باشندگان کو ان کی زمینوں پر حقِ خودمختاری حاصل ہونے کا ضابطہ ہے ویسے ہی یہ خودمختاری افغانوں کو بھی حاصل ہونی چاہیے_

 افغانیوں کی بودوباش، تہذیب و تمدن اور ثقافتی اقدار کےنام پر بیرونی طوفان درحقیقت اقدارِ انسانی کےخلاف ورزی ہے، جیسے امریکی تہذیب میں چین مداخلت نہیں کرسکتا، برطانوی روایات میں ترکی دخیل نہیں ہوسکتا اور ہندوستان میں پاکستانی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ویسے ہی افغانی تہذیب و تمدن کا معاملہ بھی افغان طالبان پر چھوڑنا عین انصاف اور عقلمندی ہے_

 

 یہ موجودہ بھارتی حکومت کا بھی امتحان ہے کہ وہ کیا پالیسی اختیار کرتی ہے، کیونکہ افغانستان میں ہندوستان کے لیے تجارتی منافع کے کثیر مواقع ہیں، اور طالبان سے صرف خارجہ پالیسی استوار رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دوستی کرنا ہوگی، خطے میں بھارت کے استحکام کے لیے یہ دوستی ناگزیر ہے، طالبان بھی ہندوستانیوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ تو دوستی کا ہاتھ بڑھا چکےہیں ایسےمیں زبردستی دشمنی پیدا کرنا بہت بڑی سیاسی ناکامی ہوگی، اور ہر تکنیکی پالیسی کا تقاضا یہی ہےکہ افغانستان و ہندوستان ساتھ ساتھ رہیں، لیکن چونکہ ہمارے وطنِ عزیز کی موجودہ سرکار، زمینی حقائق اور مسلمہ ڈپلومیٹ پالیسیوں سے زیادہ، نام و نسب اور لباس و وضع پر اپنی متعصبانہ نظریں ٹھہرا سکتی ہے اسلیے ابھی کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا، لیکن یہ تو بہرحال طےشدہ ہےکہ آئندہ، ہند و افغان خارجہ روابط استوار رہیں گے ہی، اور تب یہ بیچارے اسلامو فوبیا زدہ لبرل و اسلام۔دشمن لوگ منہ چھپاتے پھریں گے، اسلیے اپنے لوگوں کو پوری طرح مطمئن رہنے کی ضرورت ہے

 ہاں ۔ اس بابت بھی چوکنا رہنا ضروری ہےکہ کہیں مسلمانوں میں سے ہی کچھ بڑے نام عالمی طاقتوں اور ملکی مقتدرہ کی خاطر امارت اسلامیہ افغانستان کےخلاف بیان بازی نہ شروع کردیں یا یہ کہ طالبان کےخلاف کنفیوژن پھیلانے کے کام پر نہ لگ جائیں، ایسا کوئی بھی عمل ان کے لیے رسوائي کا ہی سبب ہوگا ۔

 دوسری طرف چائنا اور روس جیسی  دنیا کی دو مؤثر اور بڑی طاقتوں نے طالبان کےساتھ اشتراکی سفارت کا آغاز کردیاہے، جس سے طالبان کو بڑی زبردست شروعات ملی ہے۔

 طالبان کی فتح پر جسطرح عامۃ المسلمین متحدہ طورپر سجدہء شکر بجا لا رہی ہے اس سے مستقبل کے اسلام کے لیے امیدیں بڑھ جاتی ہیں، جس طرح افغانوں کی حریت اور طالبان کی فتح پر مومنین و مومنات کی پیشانیوں سے مسرت کے فوارے پھوٹ رہے ہیں وہ امت کے زندہ ہونے کی دلیل ہے، وہ کعبۃ اللہ کی عزت ہے وہ ایمان کی حرمت ہے _



گھروں میں دوگانہ ادا کیجیے، اپنے طورپر زیادہ شور مچائے بغیر مٹھائیاں تقسیم کیجیے، گلے ملیے، یہ وقت ایمانی اخوت کے مظاہرے کا ہے، بڑے دنوں بعد مومنین کو فتح ملی ہے، اللہ کی طرف سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بشارت ہے، یہ نوید ہیکہ سپرپاور کہلانے اور صرف مادی ٹیکنالوجی پر قبضے سے نا فتوحات ملتی ہیں نا ٹھہرتی ہیں، مصدقِ دل سے اللہ کا شکریہ ادا کریں، اپنے بچوں کو افغانی غیرت کی تاریخ بتائیے اپنی نسلوں کے سینوں کو ایمانی استقامت کی داستانوں سے بابرکت بنائیں_


 آپ کا ایمانی بھائی: 
✍: سمیع اللّٰہ خان

iklan
Comments
Commentsyang tampil sepenuhnya tanggung jawab komentator seperti yang diatur UU ITE
  • Stars Rally to Beat Predators in Winter Classic at Cotton Bowl