شہر میں بڑھتے خود کشی کے واقعات وجوہات، سدباب اور حل
پروفیسر عمران راشد
ترجمان:کانگریس پارٹی
نائب صدر:ایم ڈی ایف
خدا جانے نظر کس کی لگی ہے
اندھیرا گہرا ہوتا جارہا ہے
شہر امن مالیگاؤں میں جس طرح خرافات، جرائم، ناگہانی واقعات اور خودکشی کے معاملات میں اضافہ ہورہا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ہر خاص وعام طبقہ اس تعلق سے پریشان و فکر مند ہے۔ لوگ حیرت میں مبتلا ہے کہ آخر اس شہر کو ہوا کیا ہے؟۔ نابالغ بچوں سے لیکر خواتین اور بزرگ بھی کسی نہ کسی مسئلہ کا شکار ہوکر خود کشی کررہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیوں ایسا قدم اٹھایا جا رہا ہے؟ ۔ اس کی روک تھام کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟ کیا اس کا کوئی حل نہیں ہے ؟
ہم نے بہت سی باتوں پر بہت باریکی سے غور کیا۔ سماج و معاشرہ اور معاشرہ میں سر ابھاررہے مسائل کا مشاہدہ کیا۔ حادثات کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی۔ اور ایک نتیجے پر پہنچے کہ چند ایسے راستے ہیں جس پر عمل کرکے خودکشی کے معاملات کو روکا یا کم کیا جاسکتا ہے۔
وجوہات: عشق و محبت، سسرالی پریشانی و تکالیف، قرض، غربت، گھر والوں کے طعنے اور بیماری وغیرہ
عشق و محبت: شہر میں اکثر جو نوجوان نسل خودکشی کررہی ہے اس میں زیادہ تر معاملات عشق و عاشقی کے دیکھنے کو ملے۔ یہ الگ بات کہ خود کو سوشل ورکر کہنے والے کچھ افراد اور اہل خانہ کی جانب سے اس بات پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ حوالہ دیا جاتا ہے کہ شہر کا نام خراب ہوگا۔ بات کی جاتی ہے کہ خاندان کی عزت مٹی میں مل جائے گی۔ ایسے لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی ہٹ دھرمی، انا پرستی اور ناسمجھی یا ذات برادری کے اختلاف کی وجہ سے ایک نوجوان کو زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ہمارے شہر میں اس بات کو بڑا حقیر سمجھا جاتا ہے کہ ان کا بچہ کسی سے عشق کر بیٹھا ہے اور یہ معلوم ہو جائے کہ کسی اور برادری کا ہے تو پھر آسمان سر پر اٹھالیا جاتا ہے۔ اس شہر میں تو بہت سے ایسے بھی معاملات کا پتہ لگا کہ گھر والوں نے ہی انا کی آگ میں قتل کردیا اور خودکشی کا نام دے دیا۔
جبکہ شریعت کے حوالے سے بھی اگر بات کی جائے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے (بشرطیکہ کہ غیر شرعی کام نہ ہوں)۔ ایسے میں گھر والوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر رشتہ دیندار اور تعلیم یافتہ ہو۔ معاملات اچھے ہوں تو برادری کے اختلاف سے پرے اس معاملے کو شرعی طور سے رشتہ اور نکاح کی شکل دے دینی چاہئے۔ علماء کرام بھی یہی ترغیب دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر رشتہ درست نہ ہو تو لڑکی یا لڑکے کو بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ گھر والے اپنے بچوں کے بارے میں بہتر ہی چاہتے ہیں ۔
لیکن ہوتا یہ کہ ایسے معاملات میں دونوں ہی جانب خاص طور سے لڑکی کے گھر والے خوب طعنے دیتے ہیں ۔ برا بھلا کہتے ہیں ۔ دنیا بھر کی پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ بلکہ گھر میں مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔ ٹارچر بھی کیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ خودکشی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
سسرالی پریشانی و تکالیف:
اسی طرح دوسرا معاملہ سسرالی پریشانی اور تکالیف ہیں۔ ہمارے شہر میں بڑا عجیب رواج ہے کہ رشتہ طئے ہونے کے وقت لڑکے سے تو پوچھا جاتا ہے کہ لڑکی پسند ہے یا نہیں ؟ لڑکے کی پسند سے ہی باتیں آگے بڑھتی ہیں۔ لیکن لڑکی سے اس بارے میں کچھ نہیں پوچھا جاتا ہے کہ لڑکا پسند ہے یا نہیں۔ بس گھر والے اپنی پسند سے ہاں کردیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو لڑکی کو لڑکے کا فوٹو بھی نہیں بتایا جاتا ہے ۔ اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہم بہت عزت دار اور پاکیزہ ہیں۔ یہ پاکیزگی نہیں جہالت اور کم علمی و فرسودہ روایات و خیالات کا نتیجہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بعد مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ والدین کی طرف سے سپورٹ نہیں ملتا ہے۔ اور لڑکی خودکشی جیسا قدم اٹھا لیتی ہے۔ کچھ کیس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی بہت شاطر اور بد اخلاق نکل جاتی ہے۔ شوہر کو نہایت پریشان کرتی ہے۔ جھگڑا ،حجت و تکرار کرتی ہے۔ لڑکا کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتا ہے۔ اندر ہی اندر کڑہتا رہتا ہے اور پھر خود کشی جیسا قدم اٹھا لیتا ہے۔
*قرض اور غربت:* ہمارے شہر کا اکثریتی طبقہ غریب اور مزدور ہے۔ خود کو دیندار اور مسلمان کہنے والے اکثر زرداروں کا رویہ اپنے مزدوروں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی اور غیر ایمانی ہے۔ مزدور کسی ضرورت کے تحت سیٹھ سے پیسے ادھار لے لیتا ہے۔ اور پھر وقت پر ادا نہ کر پانے کی صورت میں سیٹھ اسے مارتا ہے گالی دیتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ کام لیتا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ معاملات ایسے بھی سامنے آئے جس میں ماں باپ کو بھی مارا گیا۔ جب اتنا سب کچھ ہوتا ہے تو مزدور خودکشی کر بیٹھتا ہے۔ کچھ دنوں قبل ہی ایسا معاملہ سامنے آیا لیکن خوش قسمتی سے ماں باپ نے بیٹے کو فورا پھندے سے اتارا اور وہ بچ گیا۔ لڑکے کا کہنا تھا کہ میرے سامنے میرے باپ کو سیٹھ نے مارا گالی دی۔ اس لئے میں نے خودکشی جیسا قدم اٹھایا۔
*بیماری:* بیماری اور شفا کا دینا یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ بیماری میں مبتلا کرکے اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے۔ اور انکے گناہوں کو معاف بھی کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ بیماری میں ہمت ہار دیتے ہیں ۔ مایوس ہو جاتے ہیں اور خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔ اس میں اکثر وہ افراد ہوتے ہیں جو بہت غریب ہوتے ہیں۔ یا جن کا کوئی نہیں ہوتا ہے۔ ان کے پاس علاج کے لئے پیسے بھی نہیں ہوتے ہیں۔ تو پریشان ہوکر خود کشی کر بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے شہر میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنہیں اللہ نے خوب نوازا ہے۔ ایسے لوگوں کو غریبوں کی مدد کے لئے آگے آنا چاہیے۔
*ذمہ دار کون ؟:* ایسے تمام معاملات میں سب سے پہلا ذمہ دار تو وہی شخص ہے جو خودکشی جیسا حرام قدم اٹھارہا ہے۔ اللہ نے ہر پریشانی کے بعد آرام رکھا ہے۔ یہ دنیا تو آزمائش گاہ ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو مختلف حالات میں آزماتا ہے۔ اس لئے ہمیں صبر کرتے ہوئے اللہ سے اچھے صلے کی امید رکھنی چاہئے۔
دوسرے سب سے اہم ذمہ دار گھر والے ہیں۔ خود کو دیندار کہنے والے ہم لوگوں کے سارے کام انا، جھوٹی شہرت اور جھوٹی واہ واہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔
*سد باب اور حل:*
اگر بچوں کا کسی سے محبت کا معاملہ سامنے آئے اور رشتہ تعلیم ،یافتہ دیندار یا ایک دوسرے کے حق میں مفید و بہتر ہو تو والدین کو چاہیے کہ وہ نکاح کرادیں۔ یہی ترغیب و ہدایت علماء نے بھی دی ہے۔ ہمیں عصبیت پرستی ( برادری واد) سے بہت اوپر سوچنا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کی اجازت تو اسلام بھی نہیں دیتا ہے۔
رشتہ طئے ہونے کے وقت لڑکی سے بھی بہت واضح طور پر اس کی رضامندی جاننی چاہئے۔ مرضی یا پسند کے خلاف رشتہ نہیں کرنا چاہیے۔
اسی طرح مرد حضرات کو اپنی پریشانیاں دوستوں اور قریبی لوگوں سے بتانی چاہیے۔ تاکہ کچھ حل نکل سکے۔
تیسرے سب سے اہم ذمہ دار یوٹیوبر اور سوشل ورکر ہیں۔ جنہوں نے سماجی خدمت کے نام پر مسلسل خودکشی کے ویڈیوز ڈال ڈال کے لوگوں کے ذہنوں میں خودکشی کو رچانے و بسانے کا کام کیا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ جب کوئی شخص ڈپریشن میں ہوتا ہے یا پریشان ہوتا ہے تو اس کا ذہن منفی سمت کام کرتا ہے۔ ایسے میں بار بار خودکشی کے معاملات کے ویڈیوز ایسے افراد کو ترغیب دیتے ہیں اور وہ آج نہیں تو کل خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔ ان کے ایسے ویڈیوز اور خبروں سے خودکشی کم نہیں بلکہ دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ لاش کو پھندے سے اتارنا ، قانونی کارروائی کرنا یہ سب پولس کا کام ہے۔ اس لئے سوشل ورکر کو ایسے کاموں اور باتوں سے اجتناب کرنا بلکہ مکمل طور رک جانا نہایت ضروری ہے.
ہم نے بہت سی باتوں کا اوپر ذکر کردیا کہ کس طرح خودکشی کے معاملات کو روکا اور حل کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ سوشل میڈیا پر اگر آپ کے گروپ میں کوئی خودکشی کی پوسٹ ڈال رہا ہے تو پہلی فرصت میں اسے ڈیلیٹ کیجئے اور اس شخص کو گروپ سے ریمو کردیجئے۔ پھر چاہے وہ جو بھی ہو۔
دوسرا کام یہ کہ شہر میں ماہرین نفسیات کی ایک کمیٹی بننی چاہئے جس کے ذریعے لوگوں کے مسائل کو جان کر اسے حل کیا جاسکے۔
والدین اور گھر کے ذمہ داران کو فرسودہ خیالات سے بہت اوپر اٹھ کر دین و شریعت کی گنجائش کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ کیونکہ زیادہ تر یہی معاملات سامنے آئے ہیں۔
شہر میں ایک کانسلنگ سینٹر کا قیام ہونا چاہئے۔ جہاں پریشان لوگوں کی کانسلنگ کرکے ان کے مسائل حل ہو سکے۔
شہر کے مخیر حضرات کو آگے آکر کچھ ایسا انتظام کرنا چاہیے جس سے غریب مزدور حضرات کو علاج اور دوا وغیرہ کی مدد ہوسکے
علماء کرام کو خودکشی کے معاملات پر دین و شریعت کی روشنی میں مسجد، مدرسہ چوک چوراہوں اور مختلف تقاریب میں سلسلہ وار بیان کا آغاز کرنا چاہئے۔
شہر کے قلمکار حضرات کو اس عنوان پر اخبارات اور سوشل میڈیا پر مضامین کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔ جس میں ہمت حوصلے کے ساتھ سد باب اور حل کی باتیں ہوں۔
اسی طرح یوٹیوبرس کو بھی اس موضوع پر علماء ، اسکالرز اور ماہرین کے ویڈیوز سلسلہ وار اپنے چینل پر اپلوڈ کرنے چاہیے۔
شہر کی مالی ووڈ انڈسٹری بھی ویڈیوز کے ذریعے اس کام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
یہ چند ایسی ضروری چیزیں اور باتیں ہیں جسے ہم اور آپ کرسکتے ہیں۔ تمام نکات پر مفصل تحریر سے مضمون مزید طویل ہو جائے گا۔ اس لئے ہم اس عنوان پر سلسلہ وار الگ الگ نکات پر مضمون کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کریں گے۔